پھر پھول کھل آئے ہیں ہر سو خوشبو آئی ہوئی ہے۔
سبزہ ہے ہر رنگ پھیلا ہے گل حنائی ہوئی ہے۔
شادابی آئی خزاں گزری تازگی چھا گئی ہے۔
پنچھی پڑے قیدی کھل کر کیسی رہائی ہوئی ہے۔
اب اک چمک آئی دیکھو رت پھر ابھر آئی لیکن۔
بدلا نیا ہے کمک انگڑائی نے لائی ہوئی ہے۔
ان پودوں کے چہرے بدلے آنے لگے روپ تازہ۔
ہر شے پہ آئی جو زیبائی ہے بنائی ہوئی ہے۔
کوئل بھی کوکی ہے ہر جانب شور کیا طائروں نے۔
سب غلغلہ چاندنی پہنائی ادائی ہوئی ہے۔
موسم نے آتے بہاریں پھر سے دکھائی ہیں اتنی۔
ہر شے حسن ہے لیے بن رعنائی گائی ہوئی ہے۔
ہیں تیری قدرت کے لاتعدادی کرشمے ہی کتنے۔
حیراں ہیں آنکھیں یوں ہر شے گہری دبائی ہوئی ہے۔
اس بار پھر اتنا اچھا موسم بنا ہے اے دلبر۔
آواز ساری سنی گلشن تک صدائی ہوئی ہے۔

0
1