بے آب دھرتی پہ بلکی خلق خدا کی ہے۔ |
جو سانس اکھڑی حالت یہ ناروا کی ہے۔ |
یہ حلق اپنا سوکھے سبھی بے دم پڑے ہیں۔ |
جو جھلسی سانس تپش بھٹکی یوں ہوا کی ہے۔ |
یہ گرمی جلائے تپ رہا ہے صحرا بھی۔ |
ہوا جو شدت لائی ہے کربلا کی ہے۔ |
یوں سوکھا سبزہ جلے بحر اور بر دونوں۔ |
لگی یوں اکھڑنے چل ہوا سزا کی ہے۔ |
کہ پانی خشک ہوا آبی و خاکی کا سارا۔ |
یوں پیاسی خلق عدم دست یابی ما کی ہے۔ |
کہ بوند بوند چرندے پرند ترسے ہیں۔ |
چلی لو خنکی گئی سوکھے نم صبا کی ہے۔ |
یوں جگی حدت شدت کی حد کیا بھڑکی۔ |
زبان تالو سے چپکے نا رسا کی ہے۔ |
یہ آنکھ اپنی بصارت کو کھونے پر لگی ہے۔ |
یوں اتری خشکی سوکھی خنک صبا کی ہے۔ |
معلومات