کون ملتا ہے یہاں پر ساکنینِ ہجر سے |
آہ! کب ہجرت کریں گے ہم زمینِ ہجر سے |
عشق جوگی آ رہا ہے آج اپنے گاؤں میں |
یاد کا اژدھا نکالے گا وہ بینِ ہجر سے |
چار غزلیں بن گئی ہیں اُس قتالہ کے لئے |
دیکھئے اب کیا بنائیں ہم مشینِ ہجر سے |
وصل سے دل کی تسلی گر نہ اب تک ہو سکی |
آج آئیں مل کے دیکھیں ماہرینِ ہجر سے |
آپ تو آئے نہیں تھے پوچھنے عشاق کو |
سب نے آنسو پونچھ ڈالے آستینِ ہجر سے |
بس طلب گاروں نے دیکھا نخلِ وصلت دور سے |
اور پھر کیا دیکھتے ہم دوربینِ ہجر سے |
معلومات