میری جانب دیکھا کر
لوگوں کا مت سوچا کر
اوروں جیسی دکھتی ہے
یوں مت بال بنایا کر
میں تیرا تھا، تیرا ہوں
وہموں کا مت پیچھا کر
تو ہے شوخ گلابوں سی
سرخ عبایا پہنا کر
ان کے دم سے زندہ ہوں
آنکھوں کو مت ڈھانپا کر
شاموں میں مت بیٹھا کر
راتوں کو مت جاگا کر

5
180
بہت اعلٰی...
ان کو دیکھ کے زندہ ہوں
آنکھوں کو مت ڈھانپا کر

آخری شعر کو اگر مطلعِ ثانی بنا لیں تو اور بات اور خوبصورت ہو جائے...

ان کے دم سے زندہ ہوں
آنکھوں کو مت ڈھانپا کر

0
آخری شعر کو اگر مطلعِ ثانی بنا لیں تو بات اور خوبصورت ہو جائے...

0
جی بالکل، مجھے لکھنے میں سہو نہیں ہوا، دراصل ڈھانپا کی مناسبت سے "دیکھ" زیادہ معنی خیز لگا، سو لکھ دیا...

0