میری بستی بس رہی ہے کھیتوں کھلیانوں کے بیچ
تم کہاں پر رہ رہے ہو تنگ دالانوں کے بیچ؟
ساغر و مینا کے منہ سے ہم نے یہ جانا فقط
شام سے کچھ چل رہا ہے تیرے مستانوں کے بیچ
ہم کو سورج سے گلہ ہے سب اندھیرے چھوڑ کر
اس نے کرنیں بانٹ دی ہیں اپنے دربانوں کے بیچ
موم بتی بجھ گئی ہے راستے کے درمیاں
ایک میت سی کھڑی ہے لاکھ پروانوں کے بیچ
تنگ آ کر بیگ چھانا، تو نیا عقدہ کھلا
تم نے ہجرت باندھ دی تھی میرے سامانوں کے بیچ

82