اپنا کیا ہے جس کو پرکھا ہر اک نے حیران کیا
پھول سےٹھوکر کھا کر آئے، پتھر نے احسان کیا
جانے کیسا منتر پھونکا یاد کی جادوگرنی نے
جو ہلکان نہیں ہوتے تھے اُن کو بھی ہلکان کیا
ان کو دیکھ کے پھینک آئے ہیں نیلم کو ہم نیلم میں
تم نے سرخی سے چمکا کر ہونٹوں کو مرجان کیا
اچھا ہوتا ہم وحشت کو صحرا میں نمٹا آتے
ہم نے اس کو گھر لے جا کر اپنا ہی نقصان کیا

128