| تیرے در پر جو بیٹھے تھے سو دنیا پر چھائے تھے |
| ورنہ ہم بھی لوگوں جیسے لوگوں سے ہی آئے تھے |
| جب تک تم نے اُن کو دیکھا پھولوں نے زیبائش کی |
| تم نے آنکھیں پھیری تھیں تو پھر وہ بھی مرجھائے تھے |
| میرے ہاتھوں کی گلیوں میں جوگی رستہ بھول گیا |
| میں نے اس کو آڑے ترچھے سارے خط دکھلائے تھے |
| تم کیا جانو کس مشکل سے خوشبو کی تشہیر ہوئی |
| جب لوگوں نے کانٹے پھینکے ہم نے گل برسائے تھے |
| تیری آنکھیں رحمت ہیں اور ان سے مل کر بھولے ہیں |
| ہم لوگوں نے کن لوگوں سے کتنے دھوکے کھائے تھے |
معلومات