تیرے در پر جو بیٹھے تھے سو دنیا پر چھائے تھے
ورنہ ہم بھی لوگوں جیسے لوگوں سے ہی آئے تھے
جب تک تم نے اُن کو دیکھا پھولوں نے زیبائش کی
تم نے آنکھیں پھیری تھیں تو پھر وہ بھی مرجھائے تھے
میرے ہاتھوں کی گلیوں میں جوگی رستہ بھول گیا
میں نے اس کو آڑے ترچھے سارے خط دکھلائے تھے
تم کیا جانو کس مشکل سے خوشبو کی تشہیر ہوئی
جب لوگوں نے کانٹے پھینکے ہم نے گل برسائے تھے
تیری آنکھیں رحمت ہیں اور ان سے مل کر بھولے ہیں
ہم لوگوں نے کن لوگوں سے کتنے دھوکے کھائے تھے

128