رستہ ترے فراق کا دیکھا تو ڈر گئے
مہکا ترا وصال تو حیرت سے مر گئے
سن کر تمہاری آنکھ کے غمزوں کی داستاں
غزلیں جوان ہو گئیں مضموں نکھر گئے
افسوس اپنے آپ پہ برسوں کے بعد ہم
یکجا کئے گئے تھے مگر پھر بکھر گئے
پوچھا کسی نے حال نہ ہی چائے کا کہا
آداب سارے شہر کے ہی آپ پر گئے
وعدہ کیا تھا ساتھ کا پیڑوں سے صبح دم
اب ڈھل گئی ہے شام تو پنچھی مکر گئے

0
121