رہتی تھی یاد وصل کی، تجھ خوش خصال کے
آیا ہوں تیرے ہجر کو آنکھیں نکال کے
یہ دل ہے چونچلے تو کرے گا سویر شام
اب دیکھنا پڑیں گے ہمیں نونہال کے
وہ سوچتا وہی ہے جسے سوچتا ہوں میں
پر زاویے الگ ہیں مرے ہم خیال کے
یہ آپ چل کے آیا ہے تیری کچھار میں
مت ہاتھ پاؤں باندھ دلِ یرغمال کے
دیکھو کہ کب بنے یہ مسیحا مریضِ زَر
کوٹھی بنے گی ساتھ اسی ہسپتال کے

105