کب تلک یوں گھر میں بیٹھے "ہائے ہائے دل" کہیں
آج مل کر اس پری سے مدعائے دل کہیں
دیکھ کر جیسے تجھے یہ دل مچلتا ہے اِسے
دل کا مر جانا کہیں یا پھر ادائے دل کہیں
جس تواتر سے مسافر آتے جاتے ہیں یہاں
رہنے والے بھی اسے اب اک سرائے دل کہیں
دل دھڑکنے سے اگر اب زندگی کے دشت میں
یاد اڑتی ہے تو اس کو خاکِ پائے دل کہیں
تیرے جانے پر بچھا ہے دل میں اک فرشِ عزا
دیکھنے والے بھی دل کو کربلائے دل کہیں

117