| مجھے عمر بھر کی نوید دے کہ ترے اثر میں گزار لوں |
| مری زندگی ہے غزل نہیں جسے دو گھڑی میں سنوار لوں |
| اسے چاندنی پہ غرور ہے، وہ مری پہنچ سے بھی دور ہے |
| مرا آسماں پہ جو بس چلے تو وہ چاند گھر میں اتار لوں |
| مجھے ہجر سونپ تو ساتھ میں اسے پالنے کا ہنر بھی دے |
| نہیں ہجر رکھنے کا تجربہ کہ میں چار دن میں سدھار لوں |
| بڑی شوخ ہے تری آنکھ بھی، مجھے کھینچتی ہے بہار بھی |
| ابھی مجھ سے طے نہیں ہو رہا کہ تجھے چنوں کہ بہار لوں |
| مری خواہشیں ہیں بجھی بجھی ، نہیں آشنا کسی پھول سے |
| ابھی در بدر ہیں یہ تتلیاں ، اِنہیں گھر ملے تو قرار لوں |
معلومات