مجھے عمر بھر کی نوید دے کہ ترے اثر میں گزار لوں
مری زندگی ہے غزل نہیں جسے دو گھڑی میں سنوار لوں
اسے چاندنی پہ غرور ہے، وہ مری پہنچ سے بھی دور ہے
مرا آسماں پہ جو بس چلے تو وہ چاند گھر میں اتار لوں
مجھے ہجر سونپ تو ساتھ میں اسے پالنے کا ہنر بھی دے
نہیں ہجر رکھنے کا تجربہ کہ میں چار دن میں سدھار لوں
بڑی شوخ ہے تری آنکھ بھی، مجھے کھینچتی ہے بہار بھی
ابھی مجھ سے طے نہیں ہو رہا کہ تجھے چنوں کہ بہار لوں
مری خواہشیں ہیں بجھی بجھی ، نہیں آشنا کسی پھول سے
ابھی در بدر ہیں یہ تتلیاں ، اِنہیں گھر ملے تو قرار لوں

61