سب کو بے قراری ہے اور ہے ترے گھر کی
ہم نے بات سن لی ہے موسموں کی امبر کی
اس طرح طوالت کی ہم مثال دیتے ہیں
جیسے تیرا آنا ہو اور شب دسمبر کی
اس کو مل رہے ہیں سو اتنا شور تو ہو گا
جان تو نکلنی ہے ایک ایک نمبر کی
ہم میں اتنی ہمت ہے تجھ پہ وار سکتے ہیں
چاند پورے جوبن کا چاندنی نومبر کی
بھینی بھینی خوشبو ہے اور جم کہ آتی ہے
تیرے پھول پیراہن اور زلف عنبر کی
اپنی مائیں بچوں کو آج بھی سناتی ہیں
دبدبہ وہ خیبر کا بات چھے ستمبر کی

99