| جب تلک تم آؤ گے لوٹ کر مکینوں میں |
| غزلیں ہو چکی ہوں گے منفرد زمینوں میں |
| ہم کو بھیج دیتا ہے بے بسی کے پردے پر |
| اور بیٹھ جاتا ہے عشق فلم بینوں میں |
| کس قدر بہائے ہیں اشک یہ بتائیں گی |
| جان پڑنا باقی ہے اپنی آستینوں میں |
| خود تو آ گئے ہیں ہم اٹھ کے اُن کی محفل سے |
| دل کو چھوڑ آئے ہیں محو ناز نینوں میں |
| اب بگولے یادوں کے نامراد جاتے ہیں |
| کھلبلی نہیں مچتی عاشقوں کے سینوں میں |
معلومات