جب تلک تم آؤ گے لوٹ کر مکینوں میں
غزلیں ہو چکی ہوں گے منفرد زمینوں میں
ہم کو بھیج دیتا ہے بے بسی کے پردے پر
اور بیٹھ جاتا ہے عشق فلم بینوں میں
کس قدر بہائے ہیں اشک یہ بتائیں گی
جان پڑنا باقی ہے اپنی آستینوں میں
خود تو آ گئے ہیں ہم اٹھ کے اُن کی محفل سے
دل کو چھوڑ آئے ہیں محو ناز نینوں میں
اب بگولے یادوں کے نامراد جاتے ہیں
کھلبلی نہیں مچتی عاشقوں کے سینوں میں

167