| ٹپکا ہے ایک سوچ سے قطرہ نوید کا |
| آیا ہے جب خیال ہمیں روزِ دید کا |
| مطلب تمہاری دید بھی نشہ ہے مجھ کو دوست |
| یہ جو تقاضا کر رہا ہوں میں مزید کا |
| دل کے عوض میں دل تمہیں دے دوں تو کیسے دوں |
| اتنے میں تو یہ ہے نہیں میری خرید کا |
| تو ہم کو چھوڑ تجھ کو نہ دے گا یہ بولنے |
| بچہ جو بے زبان ہے اپنے مرید کا |
| اک پیڑ کو جواں کرو، بچوں کے ساتھ ساتھ |
| حصہ سبھی کو جائے گا کارِ مفید کا |
| کچھ اس کے دل میں نقص تھا، واپس نہیں کیا |
| کچھ ہم سے بھی تو گم گیا کاغذ رسید کا |
| یے، زے، یے،دال میں ملا کر تو نئیں لکھوں |
| رکھ دوں میں نام کاٹ کہ اس اک پلید کا |
معلومات