کس قدر انقلاب دل میں ہے
آج کل اجتناب دل میں ہے
ہم پہ ظاہر ہے تیری بینائی
تیری خاطر گلاب دل میں ہے
تیرے غمزوں کا میری آنکھوں میں
اور تل کا جواب دل میں ہے
ایک صحرا سے دل لگی کے سبب
آنسوؤں کا چناب دل میں ہے
لے کہ بیٹھے نہیں ہیں ہاتھوں میں
آپ کا دل جناب دل میں ہے
حال بے حال کیوں نہ ہو دل کا
عشق خانہ خراب دل میں ہے
اے فرشتے تو کب گرائے گا
خاک سے جو حجاب دل میں ہے
ایک فی صد نہیں ہے چہرے پر
جس قدر اضطراب دل میں ہے
آیتیں نقش ہوں گی دھڑکن پر
اک مقدس کتاب دل میں ہے

123