منظر تمہارے شہر کا دیکھا نہیں گیا |
اب تک ہمارے گاؤں کا غصہ نہیں گیا |
ہم کو ہمارے عشق سے فرصت نہیں ملی |
ہم کو ہمارے کام سے روکا نہیں گیا |
اک شام اس کی آنکھ میں دیکھا تھا غور سے |
تب کا ہماری آنکھ سے نشہ نہیں گیا |
ہجرت تو کی چمن سے مگر ایک بات ہے |
اب تک ہمارا پھول سے رشتہ نہیں گیا |
صد شکر ہے کہ موج میں بھی دست_ ناخدا |
اوپر اٹھا ہے ، جانب_ دریا نہیں گیا |
معلومات