منظر تمہارے شہر کا دیکھا نہیں گیا
اب تک ہمارے گاؤں کا غصہ نہیں گیا
ہم کو ہمارے عشق سے فرصت نہیں ملی
ہم کو ہمارے کام سے روکا نہیں گیا
اک شام اس کی آنکھ میں دیکھا تھا غور سے
تب کا ہماری آنکھ سے نشہ نہیں گیا
ہجرت تو کی چمن سے مگر ایک بات ہے
اب تک ہمارا پھول سے رشتہ نہیں گیا
صد شکر ہے کہ موج میں بھی دست_ ناخدا
اوپر اٹھا ہے ، جانب_ دریا نہیں گیا

154