| وہی تم ہو وہی ہم ہیں وہی ظالم زمانہ ہے |
| ہمیں لڑنا ہے رسموں سے محبت کو بچانا ہے |
| کسی کے دل سے گرتے ہیں تو بربادی مقدر ہے |
| ہماری یاد کا ملبہ کسی نے کب اٹھانا ہے |
| انہیں کہنا ہے یہ دیکھو اسے کہتے ہیں رعنائی |
| ہمیں تیرا حسیں آنچل بہاروں کو دکھانا ہے |
| یہاں ملنا خجالت ہے وہاں ہم آ نہیں سکتے |
| کہیں اُن کی شکایت ہے کہیں اُن کا بہانہ ہے |
| کبھی غالب کو پڑھتے تھے کبھی نصرت کو سنتے تھے |
| یہی لگتا تھا دونوں کو پتہ اپنا فسانہ ہے |
| یہ اک شمع جو پروانوں کے رتبے کی ثنا خواں ہے |
| نہیں مقصد اسے کچھ بھی فقط اُن کو جلانا ہے |
| ہمیں کہتے ہیں بتلاؤ، ہمارے پاس کیا کیا ہے |
| یہاں سے کیا بچائیں ہم، وہاں پر کیا لگانا ہے؟ |
معلومات