بیٹھے ہو میرے دل میں بسیرا کئے ہوئے
اور پوچھتے ہو کیا ہے اجالا کئے ہوئے
ہم کو وہ ایک یاد ابھی تک ستاتی ہے
مدت ہوئی ہے جس کا ازالہ کئے ہوئے
ہر اک سے بولتا ہے مرے بارے میں غلط
میں ہوں کہ اُس بشر کو فرشتہ کئے ہوئے
آنسو ہے یوں کہ آنکھ سے نکلا ہو گھڑ سوار
یہ لشکری ہے میرا احاطہ کئے ہوئے
میں پیڑ دیکھتا ہوں تو یہ سوچتا ہوں دوست
ہیں آسماں کی سمت اشارہ کئے ہوئے

159