اپنی اقدار کی خاطر بھی اٹھاتے رہے دکھ
اور پھر یار کی خاطر بھی اٹھاتے رہے دکھ
آپ پھر آپ ہیں سنتے ہیں سمجھتے بھی ہیں
ہم تو دیوار کی خاطر بھی اٹھاتے رہے دکھ
اپنا معیار الگ تھا، جو کہ دنیا کا نہ تھا
اپنے معیار کی خاطر بھی اٹھاتے رہے دکھ
طعنے اس کے بھی سنے جس پہ نہیں تھے مائل
تیرے اصرار کی خاطر بھی اٹھاتے رہے دکھ
ہم کہ اقرار بھی کرتے تو یہی ہونا تھا
ہم کہ انکار کی خاطر بھی اٹھاتے رہے دکھ

119