جس جوگی کی گہری آنکھیں ہر ناگن پر بھاری ہیں
اس جوگی کی کٹیا میں بھی یادوں نے پھنکارا ہے
آ بتلاؤں اس گاؤں کی سب سے شوخ قتالہ کا
اس کے ہونٹوں پر لالی ہے، سانسوں میں اکتارا ہے
یہ جس کو ہم شب کہتے ہیں، اُن زلفوں کی اترن ہے
یہ جس کو ہم دن کہتے ہیں، مکھڑے کا لشکارا ہے
مرشد جی تعبیر بتائیں، اک جوبن کو دیکھا یوں
اس کے سیدھے ہاتھ میں امرت، الٹے میں مسکارا ہے
پہلے بارش نے اک آنچل سے کچھ رنگ چرائے ہیں
پھر سورج کی نگرانی میں امبر پر پچکارا ہے
ہم پھولوں کے اس ووٹنگ کو یک طرفہ کہہ سکتے ہیں
جس جس سے بھی ہم پوچھیں تو وہ بولتا ہے تمہارا ہے
اُن بندوں کی پرسش تو اے قادر ہم بھی دیکھیں گے
جن بندوں نے کچھ بندوں کو روٹی سے دھتکارا ہے

286