ایک پل میری آنکھوں سے اوجھل نہ ہو ،میری رنگوں کی دنیا سے کٹ جائے گی
یہ اداسی جو بندھی ہوئی ہے ابھی ،یہ بپھر جائے گی مجھ کو چٹ جائے گی
ایک میں ہوں کہ خود کو بھی کافی نہیں اور اسی ڈر میں گھر سے نکلتا نہیں
تو ہے مہتاب تجھ کو یہ ڈر بھی نہیں، تیری لو پورے عالم میں بٹ جائے گی
کیا یہ اچھا نہیں ہے میں دنیا نہ لوں ،تیرے در کی ہی چوکھٹ کا سائل رہوں
کیونکہ دنیا تو کتنی بڑی کیوں نہ ہو تیری چوکھٹ پہ جا کر سمٹ جائے گی
ہم دسمبر سے یوں بھی بہت تنگ ہیں، رات لمبی ہے اور پھر جدائی بھی ہے
ایسے موسم کی امید میں ہیں کہ جب دن بڑا ہو گا اور رات گھٹ جائے گی

0
212