تجربے بھی کیے سارے پرچے پڑھے کوئی ایسا تعامل نہیں مل سکا
اس کی آنکھوں سے آنکھیں نہیں مل سکیں اس کے دل سے مرا دل نہیں مل سکا.
تو نے جس کو ہواؤں کی زد پر کیا وہ دیا بجھ گیا اس کی چھٹی ہوئی
تو نے جس کو جہاں کے حوالے کیا پھر دوبارہ وہ پاگل نہیں مل سکا
ایک جنگل ہے رستے میں وہ دید کا اور دریا ہے آگے وہاں وصل کا
کوئی ایسا وہ دریا نہیں مل سکا کوئی ایسا وہ جنگل نہیں مل سکا
میں نے ململ سے لہجے کو کھدر کیا اور شہروں کی جانب روانہ ہوا
میں نے سارے کے سارے مکاں پھر لیے کوئی اک بھی تو ململ نہیں مل سکا.
اس کو جلدی لے آ اور مشہور کر، جس کو رکھا ہوا ہے کہیں بھول کر
سب بہاریں گھروں کو روانہ ہوئیں ان کو تیرا وہ آنچل نہیں مل سکا

3
166
میں نے ململ سے لہجے کو کھدر کیا اور شہروں کی جانب روانہ ہوا
میں نے سارے کے سارے مکاں پھر لیے کوئی اک بھی تو ململ نہیں مل سکا

ایک گزارش ہے، اگر ہو سکے تو اس غزل کے مطلع کو آپ فرد کی حیثیت سے اس غزل سے علیحدہ کر دیں کیونکہ غزل کے باقی قوافی یعنی پاگل، جنگل، ململ، آنچل اس مطلع کے دونوں قوافی (تعامُل، دِل)کے ساتھ ہم آواز نہیں ہیں (اختلافِ حرکت دخیل)۔۔۔

آپ کا بے حد ممنون ہوں، آپ میری تحاریر پر اپنی رائے دیتے ہیں.

0