یہ سارے شہروں کی سب دیواروں کو ایک کینوس خیال کر کے
میں اس کا چہرہ اتار دوں گا اسے یہ دھڑکا لگا رہے گا
تمہارے کمرے کی بند کھڑکی بھی اس حوالے سے سوچتی ہے
کہ چاند حجرے میں آ گیا تو کئی برس تک پڑا رہے گا
سو اس برس بھی وہ پھول لڑکی بہار رت سے لڑی رہے گی
یہ ہجر زادہ بھی اس کی رہ میں گلاب لے کر کھڑا رہے گا
تو جیسے مرضی لباس پہنے یا جیسے بالوں کو باندھ آئے
جو اس کا نقشہ بنا ہوا ہے وہ میرے دل میں بنا رہے گا
ہمارے آنکھوں میں خواب بن کر تمہاری صورت سجی رہے گی
ہمارے کالر میں پھول بن کر تمہارا لہجہ اڑا رہے گا

124