اس کے سرخ ہونٹوں کا
ادھ کھلے گلابوں سے
رابطہ سا لگتا ہے
اس کی شوخ زلفوں کا
ابر سے گھٹاؤں سے
واسطہ سا لگتا ہے
اس کی جھیل آنکھوں کا
جانے مجھ کو منظر کیوں
خوشنما سا لگتا ہے
اس کا میرے خوابوں میں
بے دھڑک چلے آنا
حوصلہ سا لگتا ہے
موسموں کی سازش میں
اس کا مجھکو یوں ملنا
معجزہ سا لگتا ہے
اس کا یوں دسمبر میں
بے سبب خفا رہنا
سانحہ سا لگتا ہے

139