وہ دل جو اپنے پاس ہو اور بے قرار ہو
اُس سے فرار ہو بھی تو کتنا فرار ہو
ساقی ترے مے خانے میں مے ہو کہ یا نہیں
اب کے میں چاہتا ہوں کوئی غم گسار ہو
تم ہو قبائے حرف پہ اتری ہوئی پری
جو بھی تمہارے ساتھ ہو نغمہ نگار ہو
آجاؤ تم فریم میں یہ چاہتا ہوں میں
پہلو میں ایک گرتی ہوئی آبشار ہو
ایسے دبا رہے ہیں یہاں خواہشوں کو ہم
جیسے یہ اپنا دل نہ ہو کوئی مزار ہو

141