ہم جو آپس میں لڑے رہتے ہیں
پھول شاخوں پہ پڑے رہتے ہیں
اب تو الفاظ کی یہ حالت ہے
تیرے پہلو میں کھڑے رہتے ہیں
آپ آتے ہیں گزر جاتے ہیں
لوگ کونے میں کھڑے رہتے ہیں
اُس کے دل میں رہے ہے شہزادی
اور بازو میں کڑے رہتے ہیں
حضرتِ عشق سے کوئی پوچھے
میرے پیچھے کیوں پڑے رہتے ہیں

170