داغ_ آوارگی کو دھونا ہے
ہم کو اک دن کسی کا ہونا ہے
ایسی پہچان کیا کرے کوئی
جس کو پہچان کر بھی کھونا ہے
اُس کی باتوں پہ ہنس نہیں سکتے
میرے یارو! یہی تو رونا ہے
چُور ہیں یاد کی تھکاوٹ سے
اب ہمیں خواب میں بھی سونا ہے
ایسی قامت ہے اک فسانے کی
جس کے آگے قلم بھی بونا ہے

124