اب میں اس کو ہنر سمجھتا ہوں
تیری آواز سوچ سکتا ہوں
جس تسلسل میں تیرے عارض ہیں
اُس تسلسل میں شعر کہتا ہوں
کوئی وہ نام جانتا ہی نہیں
کون جانے کہ کس پہ مرتا ہوں
گرد نے تان دی ہے اک چادر
چاندنی رات کو ترستا ہوں
جب مجھے کچھ سمجھ نہیں آتی
تیری باتوں کو چھیڑ لیتا ہوں

152