ہر اُس پہ مر رہا ہے جسے جانتا نہ ہو
جیسے ہمارے دل کا کوئی آشنا نہ ہو
کچھ فائدہ نہیں ہے کبوتر کو پال کر
اس کو کسی کی چھت پہ اگر بھیجنا نہ ہو
حلیے پہ ہونے لگتی ہیں باتیں غلط غلط
اتنا بھی خوش لباس مرے دوستا نہ ہو
یہ کون چاہتا ہے لگے بد دعائے عشق
یہ کون چاہتا ہے کہ وعدہ وفا نہ ہو
پتھر برس رہے ہیں جو، نیلم نہ ہو کہیں
جو پھول مل رہا ہے کہیں آبلہ نہ ہو

88