| میں نے دن میں بات کی تو برا منا گئے |
| رات میرے خواب میں خوب چہچہا گئے |
| دل کے مرغزار میں کاسنی سے گل کھلے |
| وہ ہماری بات پر آج مسکرا گئے |
| عشقِ بے مراد کا اور بہار کا ہمیں |
| جب رہا نہ کچھ خیال دونوں پاس آ گئے |
| دشت میں گلاب تھا آب تک نہ پاس تھا |
| پھر بھی اس کے حوصلے دو جہاں پہ چھا گئے |
| ایک دل نثار تھا، اس کی بات بات پر |
| ایک یار تھا مرا جس کو ضبط کھا گئے |
| میں نے ہجر چھیڑ کر چاند کے مزے لیے |
| اس کا رنگ اڑ گیا ہونٹ کپکپا گئے |
| پیر عشق میں رکھو تو قیام بھول ہے |
| راستوں میں رک گئے تو یہ ڈگمگا گئے |
معلومات