میں نے دن میں بات کی تو برا منا گئے
رات میرے خواب میں خوب چہچہا گئے
دل کے مرغزار میں کاسنی سے گل کھلے
وہ ہماری بات پر آج مسکرا گئے
عشقِ بے مراد کا اور بہار کا ہمیں
جب رہا نہ کچھ خیال دونوں پاس آ گئے
دشت میں گلاب تھا آب تک نہ پاس تھا
پھر بھی اس کے حوصلے دو جہاں پہ چھا گئے
ایک دل نثار تھا، اس کی بات بات پر
ایک یار تھا مرا جس کو ضبط کھا گئے
میں نے ہجر چھیڑ کر چاند کے مزے لیے
اس کا رنگ اڑ گیا ہونٹ کپکپا گئے
پیر عشق میں رکھو تو قیام بھول ہے
راستوں میں رک گئے تو یہ ڈگمگا گئے

153