| اب یہی سوچ کر ہم ٹھکانہ کریں, کوئی جنگل ہو کچھ ہو کہیں تو رہیں |
| تو بھی آئے نہ آئے مگر دلنشیں, ہم سے ملنے وہاں چاندنی آئے گی |
| عکس پڑتا ہے چہرے کا یوں شال پر, مجھ کو لگتا ہے اب کے اسی حال پر |
| اس کی رنگت جو ڈر کر کبھی بھی اڑی, اس کی چنری میں بھی لازمی آئے گی |
| آؤ بارش کے موسم میں کھل کر ملیں, آؤ باتیں کریں آؤ کیفے چلیں |
| یونہی لیٹے رہے اپنے گھر پر پڑے, خاک باتوں میں پھر چاشنی آئے گی |
| اس نے گیسو ہی کھولے ہیں اور شور ہے, ہم یہ کیسے بتائیں یہ لاہور ہے |
| مجھ کو بتلائیں پھر لوگ بولیں گے کیا, جب حسینہ کوئی مغربی آئے گی |
| ہم نہیں سیکھ پائے تو کیسے کہیں, ایک وہ دن بھی ہوگا کہ یارو ہمیں |
| دوستی آئے گی, دشمنی آئے گی, عاشقی آئے گی, بندگی آئے گی |
معلومات