Circle Image

Yasir Abbas

@yasir555

Soul Surfer

بارشوں کے موسم میں
سرد سرد راتوں میں
رات جب سیاہ ہوگی
تیرے اسٹیشن پر
اِک ٹرین ٹھہرے گی
سیٹیاں بجائے گی

0
40
وہ جس کے واسطے یاسر نے غزلیں لکھ ڈالی
اُسے شغف ہی نہیں شاعری کی باتوں سے

0
28
آنکھ سے آنکھ جب ملی ہوگی
زیست لمحوں میں کٹ گٸ ہوگی
میرے کمرے میں اور کیا ہوگا
اس کی تصویر ،،، ہی لگی ہوگی
میز پر میرے خط پڑے ہونگے
اور وہ چپ چاپ دیکھتی ہوگی

0
41
ایسے مشکل حیات ہے یاسر
جیسے جنگل میں رات ہے یاسر
روز ہم کو گلے لگایا کر
اصل یہ ہی نشاط ہے یاسر
شمعِ امید اب بھی روشن ہے
یہ ہواؤں کو مات ہے یاسر

31
تجھ سے مل کر تری بانہوں میں بکھر جانا ہے
پیار کرنا ہے تمہیں پیار میں مر جانا ہے
دل یہ ضدی ہے کہاں عقل کی سنتا ہے کبھی
تو جدھر جائے گا اِس نے بھی اُدھر جانا ہے
سخت پچھتایا میں ، خوشبو کو مُقیَّد کر کے
حالانکہ علم بھی تھا اِس نے بکھر جانا ہے

0
273
ایک آواز نے کل رات ، یوں جھنجھوڑ دیا
میں نے غصے میں سبھی آبلوں کو پھوڑ دیا
اور معلوم نہیں مجھ کو مگر منصف نے
میری تقدیر جو لِکھی تو قلم توڑ دیا
اب تو اشکوں کی روانی میں ترنم بھی نہیں
رابطہ اس نے مرا درد سے یوں جوڑ دیا

0
164
منظر سے دور دور تھا آنکھوں کے پاس تھا
یہ ان دنوں کی بات ہے جب تُو اداس تھا
بستر کی ہر شکن نے گواہی دی چیخ کر
ہر خواب سر تا پاؤں مرا التماس تھا
پُر لطف امتزاج تھا کانٹوں کا پھول میں
جس لمحے ایک شخص مرے آس پاس تھا

140
سماعتوں کو خموشی سے بے قرار نا کر
میں آج خوش ہوں مجھے آج سوگوار نا کر
تجلیات کی فصلوں کا باغباں ہے تو
بیانِ خلق پہ ، اتنا بھی اعتبار نا کر
نہیں پسند تو رہنے دے، کوئی بات نہیں
تو اس طرح سے میرا ، ذکرِ ناگوار نا کر

0
119
پھول شاخوں پہ اڑے رہتے ہیں
پیار میں لوگ پڑے رہتے ہیں
لوگ راہوں میں کھڑے رہتے ہیں
اور نگاہوں کو جڑے رہتے ہیں
پرچمِ عشق گڑے رہتے ہیں
اور آندھی سے لڑے رہتے ہیں

0
131
ہجر کی آندھی لے ڈوبی ہے، چاہت کے ایوانوں کو
عشق نے کاسہ لیس بنایا ، بڑے بڑے سلطانوں کو
جب بھی چاہو جیسے چاہو مجھکو چھوڑ کے جا سکتے ہو
اس سے کوئی فرق نہیں ہے ، اب تیرے دیوانوں کو
عشق ہے مسکن درد و الم کا یہ معمولی چیز نہیں
بولو عشق ہوا ہی کب ہے تم جیسے فرزانوں کو

124
شفق کے چہرے پہ یاس کیوں ہے
اے دل تُو اتنا اداس کیوں ہے
نظر کی حد سے ہے دور لیکن
نجانے دل کے وہ پاس کیوں ہے
میں ترکِ الفت سے ڈرتا لڑکا
مجھے جدائی ہی راس کیوں ہے

0
198
جب کبھی دسمبر کی
سرد شامیں آتی ہیں
پھول سے کئی جذبے
سرد آہیں بھرتے ہیں
دل نگر کے آنگن میں
چند ملول یادوں پہ

136
اچھا کرتے ہو تم ، بہانہ یہ
باتیں کرتا ہے پھر ، زمانہ یہ
میں ترے ہاتھ لگ گیا کیسے
راز میں نے ، کبھی نا جانا یہ
وہ جو داعی ہے پیار کا، اُسکو
اچھا لگتا ہے دل ، دُکھانا یہ

190
جب بھی دیوانہ تری مُشک گنوا دیتا ہے
تیرا لہجہ ، تیری تصویر بنا دیتا ہے
ایک مسکان ہے ، سونے نہیں دیتی مجھکو
ایک چہرہ ہے جو، خوابوں کو ہوا دیتا ہے
درد کی ٹیس کو کم ، وہ نہیں ہونے دیتا
جب بھی ملتا ہے ، کوئی زخم نیا دیتا ہے

160
میرے دل کو دُکھا کے، ہنسنے لگا
خط کے ٹکڑے جلا کے، ہنسنے لگا
اپنا دامن چھُڑا کے ، ہنسنے لگا
نقشِ ہستی مٹا کے ، ہنسنے لگا
رات پھر سے وہ خواب میں آیا
اور آنکھیں ملا کے ، ہنسنے لگا

2
149
یہ مانتا ہوں، ترے حُسن پہ زوال نہیں
تو خُوبرو ہے تو اِس میں، ترا کمال نہیں
بہت نحیف سے لہجے کا عام شاعر ہوں
تمہارے حسن پہ لکھنا ، مری مجال نہیں
ردیف، قافیہ، منطق، خیال، سب کچھ ہے
ہمارے پاس نہیں تو ، تری مثال نہیں

229
مرے قلم کو سخن اتنا ہو عطا مولا
لکھوں میں حمد کروں میں تری ثنا مولا
جہاں کے والی و اپنے حبیب کے صدقے
کرو نا دان مجھے طاقتِ دعا مولا
نا حور مانگوں نا جنت کا ہے مجھے لالچ
اگر جو مانگوں تو مانگوں تری رضا مولا

142
ماتھے سے شکن بالوں سے یہ گرد نکالو
کیا حال بنایا ہے ، ذرا خود کو سنبھالو
ممکن ہے اجالے سے کٹے رات یہ گہری
آنکھوں کے دریچوں میں چراغوں کو اُجالو
اب درد سے لڑ لڑ کے ، بدن ٹوٹ رہا ہے
مادر مری آؤ ، مجھے آنچل میں چھپا لو

9
307
اس سے پہلے کہ شام ہو جائے
عشق رہبر امام ہو جائے
آ محبت کے چند اصولوں پہ
کچھ ضروری کلام ہو جائے
جس کو تو ہنس کہ دیکھ لے یک بار
کام اُس کا تمام ہو جائے

566
ہم بھی تجھ کو اپنا کہتے ، بچپن سے ارمان رہا
تُو نے بخشی ہجر کی پونجی ، تیرا یہ احسان رہا
رات مجھے یوں تنہا پا کر، میرے ساتھی تاروں سے
اک تارے نے ہاتھ بڑھایا ، اک تارا حیران رہا
عشق شرع کی حد نا جانے اس میں سب کچھ ایک برابر
جو ہیں عاشق وہ ہیں کافر ، یہ اچھا بہتان رہا

124
زندگی تب ہی زندگی ہو گی
آپ آئیں گے ہر خوشی ہو گی
یہ فلک پتیاں گرائے گا
شاخِ نسریں ہری بھری ہو گی
رعکس پروانے بھول جائیں گے
شمع بھی سامنے جلی ہو گی

3
121
پھوٹی قسمت ہے مجھے اُس سے ملاتی ہی نہیں
دن چڑھا ایسا کہ اب رات تو آتی ہی نہیں
جس کی آواز کو ڈھونڈے ہے سماعت یاسر
اس کی تصویر مرے ذہن سے جاتی ہی نہیں

128
گماں کی دھند بھی آہستگی سے چَھٹنے لگی
تمہارا ذکر چِھڑا اور رات کٹنے لگی
قسم خدا کی بہت ڈر گیا تھا میں اس دن
کسی کی یاد مرے تن سے یوں لپٹنے لگی
میں ساری رات ستاروں سے ہمکلام رہا
ترے فراق میں جوں نیند میری گھٹنے لگی

121
تیری یاد کی خوشبو چار سو بکھرتی ہے
دل کی سر زمینوں پہ چاندنی اُترتی ہے
درد میں اضافہ کر غم کشید کرنا ہے
درد کے دھندلکوں میں شاعری نکھرتی ہے
آپ جیسے شاہوں کو کچھ خبر نہیں اسکی
کیسے ہم فقیروں کی زندگی گزرتی ہے

152
حال پوچھا نہیں تُو نے بیمار سے
ماتھا ٹَکراوں گا اب میں دیوار سے
جب سے خوابوں میں آنے سے تُو پھر گیا
تب سے پھرتے ہیں ہم یونہی بیدار سے
اُس برس پھول باغوں میں دُگنے کِھلے
دل لگایا تھا جب میں نے دل دار سے

2
209
اک نگاہِ کرم ، جب ہوئی ہم قدم
خوب بارش ہوئی میں نے تھاما قلم
دشتِ امکان سے ، باغِ عرفان تک
پھر تخیل نے پرواز کی ، دم بدم
کیسے جانوں تجھے کیسے پاوں تجھے
تو ہے جانِ جہاں ، میری ہستی عدم

155
تجھ کو با وصف با وفا لکھوں؟
بول بَد عہد تجھ کو کیا لکھوں
گل کہوں یا کہ میں صبا لکھوں
دل نشیں اور دلرُبا لکھوں
باقی تمہید ساری رہنے دوں
دل تو میرا ہے مدعا لکھوں

3
233
کاروان سانسوں کے، زندگی کے جنگل میں
جس گھڑی لُٹے 'یاسر' ، یاد تُو بہت آیا

163
تجھ کو با وصف با وفا بولوں؟
بول بَد عہد تجھ کو کیا بولوں
گل کہوں یا کہ میں صبا بولوں
دل نشیں اور دلرُبا بولوں
باقی تمہید ساری رہنے دوں
دل تو میرا ہے مدعا بولوں

131
میرے دلبر تو جا کے وہاں رہ گئے
باقی پیروں کے خالی نشاں رہ گئے
میرے جذبے سبھی رائیگاں رہ گئے
دل محلے میں اجڑے مکاں رہ گئے
ان کی راہوں کو تکتے ہوئی مدتیں
رب ہی جانے کہاں مہرباں رہ گئے

1
144
عشق اور محبت کے
دُکھ عجیب ہوتے ہیں
کیا نہیں سُنا تم نے
راستے میں اُلفت کے
آندھیوں کے ڈیرے ہیں
وحشتوں کے پھیرے ہیں

0
125
اے میرے دلبر اے میرے جانی
تو ہے محبت کی زندگانی
تیری ادائیں تیرے فسانے
سبھی ہیں سُننا تیری زبانی
تو صبح کی ٹھنڈی دھوپ یارم
تو ہی بہاروں کی رُت سُہانی

0
255
کل جو بُت بنائے تھے آج توڑ ڈالے ہیں
تیری سمت سب رستے آج موڑ ڈالے ہیں
ایک اس تمنا میں شامِ غم سے یاری کی
دَرش ان کا دیکھیں گے نین جو نرالے ہیں
آئینِ محبت کا یہ اصول کیسا ہے
کل مسرتیں بکھریں آج غم سمالے ہیں

0
128
حَسیں خیال جو پیہم اُنہیں ستانے لگے
وہ بے خودی سے مری شاعری سنانے لگے
بڑے غرور سے کہتے تھے یاد آتی نہیں
گئے جو ہجر کی وادی تو گِڑگِڑانے لگے
ہمارے حال پے ہنستے تھے جو سرِ محفل
ہماری یاد میں شمع بھی اب جلانے لگے

0
145
آپ مجھ سے نا اب ملا کیجے
جائیے اور خوش رہا کیجے
میں اندھیروں کا اک مسافر ہوں
مجھ سے بس دور ہی رہا کیجے
آپ سمجھے نہ میری حالت کو
اور قسمت سے کیا گلا کیجے

0
90
اپنی انگلی ڈبو کے روغن میں
تم میری روح پرکہیں لکھ دو,,
اِس کی ہستی پہ , راج ہے میرا
اِس کے جملہ حقوق میرے ہیں

257
کتنی صدیوں سے راہ تکتے ہیں
وہ جو تیرے کرم کے آسی ہیں
اتنی بیگانگی -- بھی کیا "یاسر"
ہم بھی تیرے نگر کے باسی ہیں

0
183
کس لیئے ڈھونڈتا پھرتا ہے کنارے یاسر
عشق کرنا ہے تو پھر چھوڑ سہارے یاسر
درد سے تیرا تو رشتہ ہے پرانا پاگل
تُو سمجھتا ہے سبھی اسکے اشارے یاسر
اب جو روتا ہے مُیسر نہیں آئے تُجھ کو
بول کب تھے وہ ذرا سے بھی تمھارے یاسر

0
96
لاکھ چاہا مگر مِلا ہی نہیں
اپنی قسمت میں چین تھا ہی نہیں
کس لئے حق جَتانے آ بیٹھے
خود سے مَنسوب تو کِیا ہی نہیں
اپنی حالت تو غیر ہے تب سے
تیرے دل کو مگر پَتا ہی نہیں

214
عشق دی مَچدی اَگ دے اندر
سَئے سئے دلبر گئے نی رُل
ہجر دے موسم وانگ ترازو
جتھے عشق نے جانڑائی تُل
چل فیر مصّر بازار نوں چلیے
پیندا جتھے حُسن دا مُل

0
180
سَر چوکھٹ پے پھوڑ نا پائے
ہاتھ بھی اپنے جوڑ نا پائے
چاند ستارے توڑنے والے
چُپ کے تالے توڑ نا پائے
ہجر کے طوفاں تیز تھے لیکن
عشق کے دریا موڑ نا پائے

0
125
جاؤ جلدی سے دوڑ کے جاؤ
شہر کے سب چراغ لے آؤ
سارے جنگل میں نور پھیلاؤ
سب نگر واسیوں کو بتلاؤ
ایک خوشبو مزاج پروانہ
با ادب بد نصیب دیوانہ

0
110
میں اپنی خستہ دراز کھولے
تمہارے خط سب کشید کر کے
تمہاری خوشبو کی تھیلیوں سے
سنہری صندوق بھر رہا ہوں
تمہاری یادوں کے ساحلوں پہ
گھنے ہیں سائے اداسیوں کے

0
138
آج سارے پیڑوں پر
شام کا بسیرا ہے
گام گام مایوسی
اور گھپ اندھیرا ہے
درد ہے کہ تنہائی
کون یہ بتائے گا

111
زَمانے بھر کے دُکھو , آؤ مجھ پہ ٹُوٹ پڑو,,
شرابِ عشق جو پی لی تو دَرد کیا شئے ہے

0
89
زندگی کی شام آئی دیکھو بخت ڈھلتے ہیں
سارے ہم نوا اُٹھے گھر کی اُور چلتے ہیں
چاہے جو بھی رُت آئے ساتھ جیسے دُکھ لائے
ہم تمہاری راہوں پر آج تک ٹہلتے ہیں
آہ تیرے دیوانے ہر قدم پے گرتے ہیں
تیرا نام لیتے ہیں اور پھر سنبھلتے ہیں

117
تُجھ پہ لکھی نئی نویلی ہے
نظم کم موتیوں کی تھیلی ہے
باقی دنیا ہے یار مطلب کی
اک فقط شاعری سہیلی ہے
دیکھو تُم اس سے دُور ہی رہنا
پیار آسیب کی حویلی ہے

151
ہجر کے نقش سب مِٹا دو نا
درد کی بستیاں جلا دو نا
کچھ تو بولو کوئی جواب تو دو
گر نہیں آ رہے بتا دو نا
کیا کروں نیند ہی نہیں آتی
دَم کرو کچھ ذرا سُلا دو نا

121
چُپ بیٹھو وہ بول رہا ہے
راز دلوں کے کھول رہا ہے
شہد سے میٹھا لہجہ اُس کا
کانوں میں رَس گھول رہا ہے
دیکھ کہ اُسکی ساحِر آنکھیں
من کا امرت ڈول رہا ہے

0
91
زندگی کی کتاب لکھتا ہوں
سب گناہ و ثواب لکھتا ہوں
تیرا ملنا ہی زندگی ہے میری
عمرِ رفتہ سَراب لکھتا ہوں
جس کی تعبیر تھی ملن اپنا
وہ جو دیکھا تھا خواب لکھتا ہوں

167
اک فقط آپ کا سہارا ہے
ورنہ تو ہر نَفَس خسارا ہے
ہر طرف ہے ہجومِ درد و الم
بس یہی حال اب ہمارا ہے
تیری ساری بلائیں سَر لے کر
ہم نے صدقہ ترا اتارا ہے

105
ملے بھی تو کیسے سہارے ملے ہیں
ہمیں چند گھڑیاں وہ پیارے ملے ہیں
تمہاری محبت کی بستی میں آکر
ہزاروں محبت کے مارے ملے ہیں
ترے در سے خالی نا درویش لوٹا
اِسے زندگی کے اشارے ملے ہیں

100
جس تسلسل سے اشک باری ہے
اب کہ لگتا ہے , زخم کاری ہے
سخت موسم ہے تیرے ہجراں کا
اور مشقِ سخن بھی جاری ہے
دل جگر آج پارہ پارہ ہیں
اور طبیعت میں بے قراری ہے

156
اُنکو دیکھو تو آنکھ بھر دیکھو
اور دیکھو تو ڈوب کر دیکھو
ویسے بھی ہم نے مر ہی جانا ہے
تُم پہ جاتے ہیں آج مر دیکھو
ہنستا رہتا ہوں میں اکیلے میں
یہ محبت کا ہے ثمر دیکھو

0
80
حالِ دل تم کو جب سنائیں گے
لاکھوں کاجل بہائے جائیں گے
دولتِ ہجر گر ملی ہم کو
وصل کا جی بہت جلائیں گے
یاد کر میں نا تجھ سے کہتا تھا
ایک دن ہم ملائے جائیں گے

227
اپنی تو یہ ہی کار گزاری ہے آج تک
جھرنا تمہارے پیار کا جاری ہے آج تک
رب جانتا ہے ہم نے گزاری جیئے بغیر
تیرے بغیر جو بھی گزاری ہے آج تک
اک دن تری نگاہ کو ہم سے بھی پیار ہو
کوشش یہ بارہ سال سے جاری ہے آج تک

0
125
آنکھیں ہیں نیم خواب نیا سال آ گیا
جیون وہی عذاب نیا سال آ گیا
پنچھی اُداس بیٹھے ہیں یادوں کی شاخ پہ
مُرجھائے ہیں گلاب نیا سال آ گیا
کس نے تمہارے پیار میں کیا کچھ لُٹا دیا
چھوڑو سبھی حساب نیا سال آ گیا

0
107
درد جس پے نہال ہے مرشد
چلتا پھرتا غزال ہے مرشد
جس میں شامل نہیں تری مرضی
ایسا جینا وبال ہے مُرشد
تیر گہرا اُتر گیا دل میں
چشمِ نم دیکھو لال ہے مرشد

0
139
پا لیا تو پا لیا جس نے تمہیں تقدیر سے
تیری اُلفت مل نہیں سکتی کسی تدبیر سے
مدتوں کے بعد پھر ہم کو ملا وہ دلنشیں
ہم وفورِ شوق میں چمٹے رہے زنجیر سے
میں تو ذوقِ گفتگو میں آیا تھا شیریں دہن
چند باتیں کر ہی لیتے طالبِ تاثیر سے

184
آج امدن وہ رُخ چُھپا بیٹھے
ہم کو دیکھا تو دُور جا بیٹھے
نام رکھتے تھے بے نیازی میں
تیری چاہت میں سب گنوا بیٹھے
جب بھی شامِ فراق نے گھیرا
دل کے داغوں کو ہم جلا بیٹھے

0
102
خیالِ غیر سے دوری کا اہتمام کیا
تمہارے پیار کی خوشبو نے اپنا کام کیا
کڑکتی دھوپ میں سَر پر یہ سائبان بنا
تمھاری یاد کے بادل نے یوں قیام کیا
تمام شعر مہکتے ہیں میری غزلوں کے
مرے سخن کو ترے عشق نے دوام کیا

125
یہ دھیمے لہجے میں بات کرتا ترے نگر کا اداس لڑکا
تری محبت کی رہ گُزاروں پہ برف باری میں چل رہا ہے
تمہیں پتا ہے بڑا کٹھن ہے یوں اپنی ہستی سے جنگ لڑنا
مگر اکیلے میں یہ دیوانہ اندھیر رستوں کی سرزمیں پہ
اذیتوں کے تمام نشتر جگر پہ اپنے وصول کر کے
تری تمنا چھپائے دل میں کئی دہائیوں سے چل رہا ہے

307
مِلا ہے کوئی گُلاب جیسا بُھگت رہا ہوں عذاب ایسا
مجال کس کی شباب دیکھے ہے اہتمامِ جحاب ایسا
جگر میں پھیلا تیزاب ایسا لگے ہے پانی شراب جیسا
ہے اُسکی دوری گناہ جیسی مگر ہے درشن ثواب جیسا

0
142
کوئی جا کہ بولے میرے ماہ لقا سے
کرے عرض جا کے مرے با وفا سے
کہ جینے کی اب اور جینے کی چاہت نہیں ہے
وہ صورت دکھائیں
وہ دُکھ میرا سمجھیں, میرا درد جانیں
وہ بس لوٹ آئیں

0
92
محفل سے فقیروں کو اُٹھایا نہیں کرتے
دیوانوں کو اتنا بھی ستایا نہیں کرتے
نازک سا جگر ہوتا ہے کم بخت کا ہمدم
شاعر سے کبھی آنکھ چُرایا نہیں کرتے
کوئی بھی کہے مان لیا کرتے ہو ویسے
درویش کی باتوں میں تو آیا نہیں کرتے

0
235
اک تیرا طلبگار تجھے ڈھونڈ رہا ہے
مانا ہے خطاکار تجھے ڈھونڈ رہا ہے
تصویر تمہاری کو جو رکھتا تھا سرہانے
تیرا وہ پرستار تجھے ڈھونڈ رہا ہے
گلشن کا ہر اک پھول ہی خوشبو کو سمیٹے
بَن طالبِ دیدار تجھے ڈھونڈ رہا ہے

0
108
وہ جو رنجِ جدائی دیتا ہے
ہر طرف کیوں دکھائی دیتا ہے
گو کہ اوڑھی ہے تُو نے خاموشی
پھر بھی مجھکو سُنائی دیتا ہے
گو کہ ہجراں کا ٹَلنا مشکل ہے
پھر بھی دل یہ دُہائی دیتا ہے

0
160
جب اُن کا تصور ہے نگہبان ہمارا
کچھ کر نہیں سکتا ہے یہ طوفان ہمارا
اے چارہ گرو ہم کو دلاسے تو دو لیکن
دیکھو تو ذرا عشق میں نقصان ہمارا
اک عُمر لگی سیکھتے چاہت کا سلیقہ
تب جا کہ بنا پیار یہ عنوان ہمارا

0
86
بات کرنی ہے کچھ عطاؤں کی
آگے فہرست ہے جفاؤں کی
چاہیں تو عرش کو ہلا ڈالیں
ساری مرضی ہے ان دُعاؤں کی
میرا کوئی دیا نہ جل پائے
گہری سازش ہے یہ ہواؤں کی

0
79
آ بیٹھ چارہ گَر تجھے قصہ سنائیں ہم
کسطرح زندگی نے دیے دکھ بتائیں ہم
سارے رفیق درد کی آندھی میں کھو گئے
کس کو صدا لگائیں اور کس کو بلائیں ہم
کرنا ہے پھر طواف ہمیں اس خیال کا
پہلو میں آپ بیٹھیں اور روتے ہی جائیں ہم

0
139
کل شبِ ہجر سے , اک ملاقات تھی
چاند جلتا رہا , چاندنی رات تھی
دشت ویران تھا , صبر حیران تھا
زخم روتے رہے , غم کی بارات تھی
سب ستارے رہے , ساتھ نوحہ کناں
آسماں زرد تھا , جانے کیا بات تھی

0
111
تری نگاہ کو لفظوں میں قید کرنا ہے
ہر ایک لفظ نگینوں میں ڈھال رکھنا ہے
تجھی سے تیری محبت کو مانگنے سے قبل
جگر ہتھیلی پہ امدن نکال رکھنا ہے
تمام درد سُلانے ہیں شام سے پہلے
تمام رات ستاروں سے بات کرنی ہے

0
93
کوئی نہ جانے ترے دل کا درد سو تو نے
کسی سے ربط بڑھانا نہیں ہے یاسر اب
برونِ شہر ٹھکانہ تلاش کرنا ہے
کسی کو حال سنانا نہیں ہے یاسر اب

0
94
اُداس جذبوں کے تیور سُدھانے ہیں ابھی
مچلتے دل کی امنگوں کو چُپ سکھانی ہے
تمہارے نام پہ کرنا ہے ضبط محفل میں
کچھ اس طرح سے ہمیں زندگی بتانی ہے

0
77
تمام درد سُلانے ہیں شام سے پہلے
تمام رات ستاروں سے بات کرنی ہے
تمہارے ہجر کی راتوں میں چاند تکنا ہے
تمہاری یاد کے پہلو میں رات کرنی ہے

0
130
تری نگاہ کو لفظوں میں قید کرنا ہے
ہر ایک لفظ نگینوں میں ڈھال رکھنا ہے
تجھی سے تیری محبت کو مانگنے سے قبل
جگر ہتھیلی پہ امدن نکال رکھنا ہے

0
126
جوبن ہے بہاروں پہ موسم بھی سہانا ہے
چُپکے سے چلے آؤ کچھ حال سنانا ہے
ہر در سے ملی ٹھوکر ہر شخص نے دُھتکارا
کیا بدلی نظر تو نے بدلا یہ زمانہ ہے
محور ہیں سخن کے وہ اب چاہے تو نا مانیں
نظروں کو چرانے کا اچھا یہ بہانہ ہے

315
تُو سُکھ ورگا تُو ساہ ورگا
افضل مقبول دعا ورگا
تیڈا ملنا رب دی نعمت اے
تُو دشت اچ عین پناہ ورگا
تیڈی یاد وسیلہ زندگی دا
تیڈا لہجہ ہوش رُبا ورگا

0
198
پسِ مرگ چاہت سنبھالے رہیں گے
تہہِ خاک تب ہی اُجالے رہیں گے
نہیں اور کچھ تو کوئی زخم دے دو
اِسے اپنے سینے میں پالے رہیں گے
اثر اُن نگاہوں پہ کیا وقت کا ہو
دَرخشاں وہ دو مئے کے پیالے رہیں گے

0
111
کرو وار اب کہ یوں کارگر , غمِ زندگی ہی تمام ہو
مرے دُشمنا تری جیت ہو , مرے دوستا ترا کام ہو
مرا عشق تیری تلاش میں پھرے دشتِ ہجر کی دھوپ میں
ترا ذکر ہو تری فکر ہو , ترا نام تکیہ کلام ہو
تری چاہتوں کا حصار ہو , میری شدتوں کو قرار ہو
ترے عاشقوں میں شمار ہو , مجھے تیرے کام سے کام ہو

0
88
مُڑ مُڑ نہ دیکھ یار , مجھے دور جانا ہے
جاؤں ترے نثار , مجھے دور جانا ہے
بوجھل ہیں میرے پاؤں بڑی تیز دھوپ ہے
آ چل ندی کے پار , مجھے دور جانا ہے
محشر تلک تمہارا یہ , احسان مانوں گا
اک شام دے اُدھار , مجھے دور جانا ہے

0
582
کیا محبت کی سنتے ہو اب داستاں
کیا بنا , کیا ہوا , الاماں الاماں
تُو بچھڑ جائے گا ,میں اُجڑ جاؤں گا
میں نے بولا جو تھا تجھ سے پیرِ مغاں
پوچھ مت پوچھ مت ورنہ پھٹ جائے گا
میرے سینے میں پلتا ہے آتش فشاں

0
90
میں تجھ کو یاد نہ کرتا تو اور کیا کرتا
میں تیری بات نہ کرتا تو اور کیا کرتا
سوائے عشق مجھے اور کچھ نہیں معلوم
میں چاہتوں سے مُکرتا تو اور کیا کرتا
وگرنہ دور اُڑا چلتی آندھیاں تجھ سے
میں اپنے پَر نہ کُترتا تو اور کیا کرتا

0
74
وہ نا شاید قرار پائے گا
اس نےشاعر کا دل دکھایا ہے

0
115
اک حَشر سا پبا ہے اور عید آرہی ہے
دل دَرد سے بھرا ہے اور عید آرہی ہے
اشکوں کے کارواں بھی دَر کھٹکھٹا رہے ہیں
بادل بھی رو رہا ہے اور عید آرہی ہے
ہجراں کی تُیز آندھی تَن کوجلا رہی ہے
اک لمبا راستہ ہے اور عید آرہی ہے

0
139
چاند ہوں چاندنی لُٹاتا ہوں
خواب ہوں خواب میں ہی آتا ہوں
رات بھر دیکھتا ہوں تاروں کو
نیند آئے تو سو بھی جاتا ہوں
تیری صورت کو ذہن میں لا کر
شعر کہتا ہوں گُنگُناتا ہوں

0
105
اے ہمنشیں مسافر مجھے راستہ دکھانا
چھوڑے زمانہ بے شک تم ہاتھ نا چھڑانا
پہلے ہی سوچ لو تم آئیں گے درد لاکھوں
پھر بیچ راستے میں تنہا نا چھوڑ جانا
تُو ہے چمن کی رونق جب جانے گا زمانہ
تب گائے گی یہ دنیا , درویش کا ترانہ

0
126
وہ پرندوں کے پَر کُترتا ہے
کنتا ظالم ہے کچھ بھی کرتا ہے
میں تو ہر شب دیے جلاتا ہوں
چاند ہے وہ , کہاں اُترتا ہے
شام رہتی ہے میری چوکھٹ پے
تُو , اُجالوں کی بات کرتا ہے

0
81
مہربانی بڑا خیال کیا
عُہدہِ دلبری بحال کیا
یہ لحد پے جو آج روتا ہے
اس نے جینا بڑا محال کیا
چھوڑ دینا تو کوئی بات نہ تھی
مجھ کو بھولے بڑا کمال کیا

0
90
حَسیں خیال جو پیہم اُنہیں ستانے لگے
وہ بے خودی سے مری شاعری سنانے لگے
بڑے غرور سے کہتے تھے یاد آتی نہیں
گئے جو ہجر کی وادی تو گِڑگِڑانے لگے
ہمارے حال پے ہنستے تھے جو سرِ محفل
ہماری یاد میں شمع بھی اب جلانے لگے

0
96
روح کو جسم سے جدا کرنا
اتنا آساں نہیں وفا کرنا
اب میں حساس ہو گیا ہوں بہت
تم بھی جی بھر کہ اب جفا کرنا
خواب سچے نہیں ہوا کرتے
اس لئے جاگتے رہا کرنا

153
عجب سماں تھا غضب گھڑی تھا
میں تیری بستی سے جا رہا تھا
اداس یادوں کے کارواں تھے
جو سنگ میرے رواں دواں تھے
قدم قدم لڑکھڑا رہا تھا
میں تیری بستی سے جا رہا تھا

0
105
بن تیرے کوئی میرا طرف دار نہیں ہے
ہمدرد کُجا کوئی بھی غمخوار نہیں ہے
کل رات یہ کمرا تری خوشبو سے مہکا
اُس وقت سے مَن مائلِ بیدار نہیں ہے
جو صبر میں لذت ہے وہ رونے میں کہاں ہے
ورنہ مجھے رونے سے بھی انکار نہیں ہے

89