جب کبھی دسمبر کی
سرد شامیں آتی ہیں
پھول سے کئی جذبے
سرد آہیں بھرتے ہیں
دل نگر کے آنگن میں
چند ملول یادوں پہ
اوس پڑنے لگتی ہے
ہجر کی منڈیروں سے
اپنے تن کو مَس کر کے
نیم وا دریچوں سے
چاندنی جو آتی ہے
دل میں سوئے دردوں کو
ہولے سے جگاتی ہے
گال تھپتھپاتی ہے
اور مسکراتی ہے
دور جانے والوں کے
قصے بھی سناتی ہے
کسطرح وہ رہتے ہیں
حال سب بتاتی ہے
اس طرح کی راتیں بھی
خواب جیسی لگتی ہیں
دور جنگلوں میں پھر
چند پرند شاخوں پہ
بیٹھے بیٹھے مستی میں
گیت گنگناتے ہیں
دل بڑا لبھاتے ہیں
اور پھر کبھی یک دم
ریل کی کوئی سیٹی
کان کھٹکھٹاتی ہے
منتظر نگاہوں کی
آس بندھ سی جاتی ہے
یائے وہ حسیں شامیں
کھو گئی کہاں یاسر
جب کہیں سے تم یونہی
چاندنی کی مانند ہی
میرے در پہ آ جاؤ
دوریاں مٹا جاؤ
حوصلے بندھا جاؤ

137