جب اُن کا تصور ہے نگہبان ہمارا
کچھ کر نہیں سکتا ہے یہ طوفان ہمارا
اے چارہ گرو ہم کو دلاسے تو دو لیکن
دیکھو تو ذرا عشق میں نقصان ہمارا
اک عُمر لگی سیکھتے چاہت کا سلیقہ
تب جا کہ بنا پیار یہ عنوان ہمارا
تجھ سے ہی تو وابستہ ہیں اشعار ہمارے
چاہت کا خلاصہ ہے یہ دیوان ہمارا
تنہا ہی تڑپنا ہے شکایت نہیں کرنی
ہمدرد کہاں کوئی بھی انسان ہمارا
آلام سکھاتے ہیں محبت کا قرینہ
دیوانو سنو غور سے اعلان ہمارا
الفت کے اسیروں نے سرِ دار کہا ہے
ہر ظلم کا شاہد ہے یہ زندان ہمارا
خاموش رہو گے تو ہمیں کہنا پڑے گا
ہر لفظ تری چُپ کے ہے قربان ہمارا
ہر بزم کی رونق ہے وہ یاسر کا ستارہ
ہائے وہ حسیں دلکش و ذیشان ہمارا

0
92