گماں کی دھند بھی آہستگی سے چَھٹنے لگی |
تمہارا ذکر چِھڑا اور رات کٹنے لگی |
قسم خدا کی بہت ڈر گیا تھا میں اس دن |
کسی کی یاد مرے تن سے یوں لپٹنے لگی |
میں ساری رات ستاروں سے ہمکلام رہا |
ترے فراق میں جوں نیند میری گھٹنے لگی |
اُسے تلاش تھی شاید کہ تیرا ذکر ملے |
ہوا کتاب کے صفحوں کو یوں پلٹنے لگی |
جو پچھلے سال گرم شال تو نے بھیجی تھی |
وہ نرم شال مری روح سے لپٹنے لگی |
ہم ایسے لوگ ترے عشق میں مریں کیسے |
یہ زندگی بنے زنجیر ہے چمٹنے لگی |
تمہارے وصل کے سپنے سجائے تھے یاسر |
تمہارے ہجر سے جیون کی آنکھ اَٹنے لگی |
معلومات