زندگی کی شام آئی دیکھو بخت ڈھلتے ہیں |
سارے ہم نوا اُٹھے گھر کی اُور چلتے ہیں |
چاہے جو بھی رُت آئے ساتھ جیسے دُکھ لائے |
ہم تمہاری راہوں پر آج تک ٹہلتے ہیں |
آہ تیرے دیوانے ہر قدم پے گرتے ہیں |
تیرا نام لیتے ہیں اور پھر سنبھلتے ہیں |
گُھپ اندھیری راتوں میں چار سُو اُجالا ہے |
رات ہجر کی آئی دل کے داغ جلتے ہیں |
باسی اِس نگر کے سب مثلِ اہلِ کوفہ ہیں |
جب بھی موڑ آتا ہے راستہ بدلتے ہیں |
جب سے تُو نے خوابوں میں آناجانا چھوڑا ہے |
نیند ہم سے یوں روٹھی خواب ہاتھ ملتے ہیں |
یاد تیری آئے جب سانس تک نہیں آتی |
جیسے تیز آندھی میں کچھ چراغ جلتے ہیں |
تیرے سَرد لہجے کی بے نیاز حدت سے |
آنکھ میری بھر آئی جان و دل پگھلتے ہیں |
دَرد سے ہو یارانہ تب ہی عشق کامل ہے |
ورنہ درد کب ہمدم ٹالنے سے ٹلتے ہیں |
آؤ آ کہ لے جاؤ سب دیے امیدوں کے |
محض چند یادوں سے دل کہاں بہلتے ہیں |
بوجھ تیری فُرقت کا جاں کو آنے لگتا ہے |
جب بھی تیرے کوچے سے یہ قدم نکلتے ہیں |
بات میری سُن 'یاسر' چھوڑ یہ غزل خوانی |
جس طرف گئے تھے وہ آ اُدھر کو چلتے ہیں |
معلومات