وہ پرندوں کے پَر کُترتا ہے
کنتا ظالم ہے کچھ بھی کرتا ہے
میں تو ہر شب دیے جلاتا ہوں
چاند ہے وہ , کہاں اُترتا ہے
شام رہتی ہے میری چوکھٹ پے
تُو , اُجالوں کی بات کرتا ہے
تیرے بن زندگی ہے بے معنی
جیتا ہے وہ, جو تُم پہ مرتا ہے
دیکھ یہ چہرہ خال و خد میرے
کوئی بکھرے تو یوں بکھرتا ہے
پڑھ غزل اور تھوڑا کر محسوس
کارواں , یاد کا گُزرتا ہے
لے منافع , حساب رہنے دے
ایسی باتیں بھی کوئی کرتا ہے
تجھ کو حاصل ہیں اختیار سبھی
وار کر , کیوں کسی سے ڈرتا ہے
یار کچھ تو خدا کا خوف بھی کر
اپنے وعدے سے , کیوں مُکرتا ہے
حکم کیجے تو ایسے کہتا ہے
جیسے سچ مچ ہی پیار کرتا ہے
کیا ضرورت ہے اُسکو تیروں کی
وہ , نگاہوں سے وار کرتا ہے
تُو بھی یاسر قسم سے پاگل ہے
اس طرح , کون کس پہ مرتا ہے

0
82