بارشوں کے موسم میں
سرد سرد راتوں میں
رات جب سیاہ ہوگی
تیرے اسٹیشن پر
اِک ٹرین ٹھہرے گی
سیٹیاں بجائے گی
اور لٙوٹ جائے گی
آندھیاں چلیں گی پھر
درد اور محبت کی
عشق تنہا گلیوں
در بدر سا گھومے گا
سارے در بجائے گا
آخرش کو تنگ آ کر
چاندنی کے پہلو میں
تھک کے لیٹ جائے گا
تم تو محو ہو گے تب
زندگی کے رنگوں میں
اور نئی امنگوں میں
تم کو کیا خبر ہوگی
کوئی کیسے اُجڑا ہے
کوئی کیسے بکھرا ہے
کس کی آس ٹوٹی ہے
کس کو ہجر راس آیا
اور کیا سَہا کس نے
تیرے گھر کے آنگن میں
مَور ناچتا ہو گا
تیرے چار سو تو تب
گیت ہونگے سنگم کے
پائلوں کی چھن چھن اور
کہکہوں کے غل ہونگے
پر مجھے یقیں ہے کہ
تیرے پاؤں کی پائل
شور جب مچائے گی
تم کو چند پھولوں کی
مہک تو ستائے گی

0
70