اک نگاہِ کرم ، جب ہوئی ہم قدم
خوب بارش ہوئی میں نے تھاما قلم
دشتِ امکان سے ، باغِ عرفان تک
پھر تخیل نے پرواز کی ، دم بدم
کیسے جانوں تجھے کیسے پاوں تجھے
تو ہے جانِ جہاں ، میری ہستی عدم
آپ غمگین ہوں ، یہ خدا نا کرے
اے مرے ذی حشم تیرا غم میرا غم
سانس ہے جب تلک ہونٹ ہلتے رہیں
چومتا ہی رہوں تیرے نقشِ قدم
دلربا دلنشیں غم نا کر غم نا کر
رنگ لائیں گے سارے یہ درد و الم
زخم دھل جائیں گے غم پگھل جائے گا
آپ ہو جائیں گر ، مائلِ با کرم
وہ ضرَور آئیں گے ، آنے والے ہیں وہ
منتظر تو بنو ، ہو کہ ثابت قدم
چاند تارے سبھی منتظر ہیں ترے
رُخ سے پردہ ہٹا اے مرے محترم
تیرے قدموں میں جتنی جگہ مل گئی
وہ ہی جنت مری ، وہ ہی باغِ ارم
دنیا جو بھی کہے ، لاکھ کہتی رہے
کوئی پروا نہیں ، تیرے عاشق ہیں ہم
اب تو درشن کرا ، جانِ "یاسر" ذرا
عشق تیرا ہوا ، میری ہستی میں ضم

156