جوبن ہے بہاروں پہ موسم بھی سہانا ہے |
چُپکے سے چلے آؤ کچھ حال سنانا ہے |
ہر در سے ملی ٹھوکر ہر شخص نے دُھتکارا |
کیا بدلی نظر تو نے بدلا یہ زمانہ ہے |
محور ہیں سخن کے وہ اب چاہے تو نا مانیں |
نظروں کو چرانے کا اچھا یہ بہانہ ہے |
جو بیت گئی ہَم پر ، وہ کیسے بیاں کردیں |
پُر درد کہانی ہے , ظالم یہ زمانہ ہے |
ہر لمحہ اذیت ہے ، ظلمت کے اندھیرے ہیں |
ہَم ڈھونڈتے پھرتے ہیں، کوئی نا ٹھکانہ ہے |
دل روتا ہے کیوں پاگل اب رونے سے کیا حاصل |
تیری ہی تو خواہش تھی دل اُن سے لگانا ہے |
مقصود توجہ ہے اک درد کے مارے کو |
محرومِ تمنا نے کچھ حال سنانا ہے |
مانا کہ زمانے میں دیوانے ہزاروں ہیں |
پر غور سے دیکھو تو عاشق یہ یگانہ ہے |
الفاظ میں یہ قصہ کچھ ایسے بیاں ہوگا |
مستانہ نگاہوں سے درویش زمانہ ہے |
اس راہ سے کیوں اُٹھیں یہ راہ ہی منزل ہے |
اس راہ سے دلبر نے پھر لوٹ کے آنا ہے |
آنکھو اے مری آنکھو امداد کرو میری |
آنسو نہ کوئی ٹپکے اک عہد نبھانا ہے |
سوچوں کی سلاسل میں وہ آ نہیں سکتے ہیں |
کس نے اُنہیں سمجھا ہے کس نے انہیں جانا ہے |
اس آس پہ جینا ہے ، ہر سانس جو لینی ہے |
اب چارہ نہیں کوئی ، لازم اُنہیں آنا ہے |
آباد رہو ہر دم ، "یاسر" کی تمنا ہے |
اب وردِ زباں ہے یہ اور یہ ہی ترانا ہے |
معلومات