بات کرنی ہے کچھ عطاؤں کی |
آگے فہرست ہے جفاؤں کی |
چاہیں تو عرش کو ہلا ڈالیں |
ساری مرضی ہے ان دُعاؤں کی |
میرا کوئی دیا نہ جل پائے |
گہری سازش ہے یہ ہواؤں کی |
سبز پتے بھی جھڑ رہے ہیں یار |
کیسی رُت آ گئی خزاؤں کی |
لاکھوں غم جذب کرکے ہنس دینا |
یہ تو فطرت ہے رہنماؤں کی |
میکدہ دور نا ہو مسجد سے |
یہ دُہائی ہے پارساؤں کی |
ہار جاتا ہے عشق اُس لمحے |
جیت ہوتی ہے جب اناؤں کی |
میں بہت دیر تک ہنسا یاسر |
اُس نے جب بات کی وفاؤں کی |
معلومات