ہجر کی آندھی لے ڈوبی ہے، چاہت کے ایوانوں کو
عشق نے کاسہ لیس بنایا ، بڑے بڑے سلطانوں کو
جب بھی چاہو جیسے چاہو مجھکو چھوڑ کے جا سکتے ہو
اس سے کوئی فرق نہیں ہے ، اب تیرے دیوانوں کو
عشق ہے مسکن درد و الم کا یہ معمولی چیز نہیں
بولو عشق ہوا ہی کب ہے تم جیسے فرزانوں کو
جب اپنوں نے آنکھ چرائی دردکے تنہا موسم میں
میں نے بھی پھر حال سنایا اپنا کچھ انجانوں کو
عشق ملا کل رستے میں ، کہنے لگا اب کیسے ہو؟
میں نے اس سے معافی مانگی ہاتھ لگائے کانوں کو
کیسے دین چکا پائیں گے کیسے ان کو بھلا پائیں گے
مرتے دم تک یاد رکھیں گے آپ کے ان احسانوں کو
جمع کیا سب خوابوں کو اور گٹھڑی میں بند کیا
دل میں پھر اک قبر بنائی دفن کیا ارمانوں کو
جب شہروں کی رونق اپنے جی کو آنے لگتی ہے
تب ہم شہر سے چل پڑتے ہیں فرقت کے زندانوں کو
عجب غضب سے شوق ہیں اسکے سرد اندھیری راتوں میں
تکیہ بھِینچ کے پڑھتے رہنا , منٹو کے افسانوں کو
پہلے تو وہ کھیل رہی تھی، رنگ برنگے پھولوں سے
یاسر نام سنا تو بھاگی ، چھوڑ کے سب گل دانوں کو

126