ہم بھی تجھ کو اپنا کہتے ، بچپن سے ارمان رہا
تُو نے بخشی ہجر کی پونجی ، تیرا یہ احسان رہا
رات مجھے یوں تنہا پا کر، میرے ساتھی تاروں سے
اک تارے نے ہاتھ بڑھایا ، اک تارا حیران رہا
عشق شرع کی حد نا جانے اس میں سب کچھ ایک برابر
جو ہیں عاشق وہ ہیں کافر ، یہ اچھا بہتان رہا
اوروں کی تو بات ہی چھوڑو کون کسی کا ہوتا ہے
تُو تو میرا اپنا تھا نا ، تُو کیسے انجان رہا
ویسے تو ہر بات تمہاری، تنز پہ مبنی ہوتی ہے
پیار بھرے دو بول ہی سنتے، ہائے یہ ارمان رہا
سورج نکلا آس بھی ڈوبی رات کی محنت ہوا ہوئی سب
ورنہ تیرے لوٹ آنے کا ، صبح تک امکان رہا
کیا کیا خواب سجائے میں نے دیپ سے دیپ جلائے میں نے
دل تھا لیکن تھَل کا باسی ، آخر تک ملتان رہا
یہ کوئی چھوٹی بات نہیں تھی چاند کے جیسے اک دلبر کی
غزلوں جیسی دو آنکھوں میں ، یاسر تُو مہمان رہا

134