اک فقط آپ کا سہارا ہے
ورنہ تو ہر نَفَس خسارا ہے
ہر طرف ہے ہجومِ درد و الم
بس یہی حال اب ہمارا ہے
تیری ساری بلائیں سَر لے کر
ہم نے صدقہ ترا اتارا ہے
ہائے شوخی تمہارے لہجے کی
اور انداز کتنا پیارا ہے
رات گھبرا کہ پھر سے وحشت میں
میں نے تجھ کو بہت پکارا ہے
میں ترے کوئی کام نا آیا
بس اسی رنج نے تو مارا ہے
جانے کیسے کٹے گا سال نیا
پہلے مشکل سے یہ گزارا ہے
لوٹنے کو ہیں پھر وہاں خوشیاں
اب جہاں درد کا اجارا ہے
اب بھی آواز تیری آتی ہے
جیسے تو نے مجھے پکارا ہے
میری سنتا نہیں یہ پاگل دل
کیا مرا دل بھی اب تمہارا ہے
بارہا تیرا نام لے لے کر
ڈوبتی نبض کو اُبھارا ہے
لٹ گیا پیار میں ترے یاسر
پھر ترے ہجر نے سنوارا ہے

121