تری نگاہ کو لفظوں میں قید کرنا ہے
ہر ایک لفظ نگینوں میں ڈھال رکھنا ہے
تجھی سے تیری محبت کو مانگنے سے قبل
جگر ہتھیلی پہ امدن نکال رکھنا ہے
تمام درد سُلانے ہیں شام سے پہلے
تمام رات ستاروں سے بات کرنی ہے
تمہارے ہجر کی راتوں میں چاند تکنا ہے
تمہاری یاد کے پہلو میں رات کرنی ہے
اُداس جذبوں کے تیور سُدھانے ہیں ابھی
مچلتے دل کی امنگوں کو چُپ سکھانی ہے
تمہارے نام پہ کرنا ہے ضبط محفل میں
کچھ اس طرح سے ہمیں زندگی بتانی ہے
کوئی نہ جانے ترے دل کا درد سو تو نے
کسی سے ربط بڑھانا نہیں ہے یاسر اب
برونِ شہر ٹھکانہ تلاش کرنا ہے
کسی کو حال سنانا نہیں ہے یاسر اب

0
93