کل جو بُت بنائے تھے آج توڑ ڈالے ہیں
تیری سمت سب رستے آج موڑ ڈالے ہیں
ایک اس تمنا میں شامِ غم سے یاری کی
دَرش ان کا دیکھیں گے نین جو نرالے ہیں
آئینِ محبت کا یہ اصول کیسا ہے
کل مسرتیں بکھریں آج غم سمالے ہیں
آرزو کی بستی میں رندِ خاص آئے ہیں
جام سب نے پینا ہے دو فقط پیالے ہیں
تیرے ہجر کی وادی دائمی بسیرا ہے
کچھ دوا نہیں جنکی روگ ایسے پالے ہیں
شاعری کی صحبت میں آہوں نے خموشی سے
واری ہر خوشی اپنی اور سکھ بھی ٹالے ہیں
"یاسر" ایک مستانہ اور تیرا دیوانہ
کر نگاہ اک ساقی ہم بھی مولا والے ہیں

0
128