تُجھ پہ لکھی نئی نویلی ہے
نظم کم موتیوں کی تھیلی ہے
باقی دنیا ہے یار مطلب کی
اک فقط شاعری سہیلی ہے
دیکھو تُم اس سے دُور ہی رہنا
پیار آسیب کی حویلی ہے
عشق منطق کی حد سے باہر ہے
جو نہ سُلجھے یہ وہ پہیلی ہے
میرے بچپن کے یار ہیں جگنو
ورنہ اب کون کس کا بیلی ہے
تُو نے تَو جان تک نہیں بخشی
بازی یہ کسطرح کی کھیلی ہے
کیسے میں زندگی سے پیار کروں
وہ فلک پر بہت اکیلی ہے
تیری دُھن میں حیات کاٹیں گے
یاسر اب یہ قسم تو لے لی ہے

151