| پسِ مرگ چاہت سنبھالے رہیں گے |
| تہہِ خاک تب ہی اُجالے رہیں گے |
| نہیں اور کچھ تو کوئی زخم دے دو |
| اِسے اپنے سینے میں پالے رہیں گے |
| اثر اُن نگاہوں پہ کیا وقت کا ہو |
| دَرخشاں وہ دو مئے کے پیالے رہیں گے |
| وہ اک بار دیکھیں فقط مُسکرا کے |
| کوئی شکوہ ہو گا نہ نالے رہیں گے |
| غضب داستاں ہے , محبت ہماری |
| اسے شعروں غزلوں میں ڈھالے رہیں گے |
| جہاں سرفروشی کا دستور ہو گا |
| وہاں دل جلے اور جیالے رہیں گے |
| وہی عشق میں سُرخرو ہو رہیں گے |
| جو دَوراں کی گردش کو ٹالے رہیں گے |
| وہ جب بھی جہاں اور جیسے ملیں گے |
| شکایت کُجا منہ پہ تالے رہیں گے |
| ملیں نا ملیں منزلیں اپنی قسمت |
| مقدر یہ پاؤں کے چھالے رہیں گے |
| ہمارے قبیلے میں چاہت کی خاطر |
| جگر کا لہو دینے والے رہیں گے |
| ہر اک لمحہ اب اُن کے شانہ بشانہ |
| ہماری دُعاؤں کے ہالے رہیں گے |
| تو پھر چاند سورج کی کیا ہو تمنا |
| تری دید کے جب اُجالے رہیں گے |
| میری زندگی کا اثاثہ یہی ہیں |
| تمہارے یہ خط ہم سنبھالے رہیں گے |
| قیامت کے دن تک ترا طوقِ چاہت |
| یہ دیوانے گردن میں ڈالے رہیں گے |
| یہ ہے عشق والوں کی فہرست یاسر |
| اِسی میں ہمارے حوالے رہیں گے |
معلومات