سماعتوں کو خموشی سے بے قرار نا کر
میں آج خوش ہوں مجھے آج سوگوار نا کر
تجلیات کی فصلوں کا باغباں ہے تو
بیانِ خلق پہ ، اتنا بھی اعتبار نا کر
نہیں پسند تو رہنے دے، کوئی بات نہیں
تو اس طرح سے میرا ، ذکرِ ناگوار نا کر
ترے خرام سے بادِ صبا میں خوشبو ہے
متاعِ درد سے دامن کو ، ہم کنار نا کر
تڑپتا چھوڑ کے جائے گا اس طرح مجھ کو
تو میری چاہ کو اتنا بھی ، ریگِ زار نا کر
تمہارے نینوں سے فطرت کو استعارے ملے
اِن آسمانی صحیفوں کو ، تار تار نا کر
اٹھا یہ اپنا ترازو ، یہاں سے چلتا بن
یہ پیار سودا نہیں ہے تُو کاروبار نا کر
ہزاروں درد ملیں سینے سے لگا ان کو
یہ سنگِ میل ہیں یاسر انہیں شمار نا کر

0
131