حال پوچھا نہیں تُو نے بیمار سے
ماتھا ٹَکراوں گا اب میں دیوار سے
جب سے خوابوں میں آنے سے تُو پھر گیا
تب سے پھرتے ہیں ہم یونہی بیدار سے
اُس برس پھول باغوں میں دُگنے کِھلے
دل لگایا تھا جب میں نے دل دار سے
تب میں عجلت میں تھا کہہ نا پایا تجھے
دیکھ جی بھر کہ لیکن، صنم پیار سے
کان، اُس وقت سے میرے سرشار ہیں
اک فسانہ سنا تھا ، لبِ یار سے
ہے عجب زندگی کی کہانی مری
سب کو ہے مسئلہ میرے کردار سے
چند سِکّے ملے تھے گلی سے مجھے
جا کے خوشیاں خریدوں گا بازار سے
بولے، ویسے تو "یاسر" نکما سا ہے
شعر کہتا ہے لیکن ، مزیدار سے

2
211
واآہ

اعلی